ارطغرل غازی کا ناقابلِ یقین فیصلہ
چاند بادلوں میں چھپ چکا تھا، اور رات کا اندھیرا جنگل پر وحشت کی چادر ڈال چکا تھا۔ درختوں کے پتوں میں سرسراہٹ ہو رہی تھی، جیسے کوئی سایہ دبے پاؤں حرکت کر رہا ہو۔ خیموں میں خاموشی تھی، مگر ارطغرل غازی کے دل میں ایک طوفان برپا تھا۔
کیا یہ ممکن تھا؟ کیا واقعی قبیلے کے اندر ہی کوئی غدار موجود تھا؟
دو دن پہلے ایک قاصد ارطغرل کے پاس خبر لایا تھا کہ بازنطینی فوج خفیہ طور پر حملہ کرنے والی ہے۔ لیکن آج رات، ارطغرل کے ایک وفادار سپاہی نے آ کر سرگوشی میں بتایا:
“سردار! ہمیں دھوکہ دیا جا رہا ہے! دشمن باہر نہیں، بلکہ ہمارے درمیان ہی موجود ہے!”
ارطغرل کی آنکھیں لمحے بھر کے لیے سکڑ گئیں۔ اس کا ہاتھ بےاختیار تلوار کے دستے پر جا پڑا۔
“کون ہے وہ؟” ارطغرل نے آہستہ مگر پُرہیبت آواز میں پوچھا۔
سپاہی نے ایک نام لیا… وہ نام سن کر ارطغرل کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے سکتہ طاری ہو گیا۔
غدار کا انکشاف
وہ نام تھا “سلیمان” – جو کہ قبیلے کے اندر ایک معتبر شخص سمجھا جاتا تھا۔ وہ برسوں سے قبیلے کے معاملات میں شامل تھا اور کئی جنگوں میں ارطغرل کے ساتھ کھڑا رہا تھا۔ لیکن کیا یہ ممکن تھا کہ وہی شخص دشمن کے لیے کام کر رہا ہو؟
ارطغرل نے فوراً اپنے قریبی سپاہیوں کو بلایا اور حکم دیا:
“کسی کو شک نہ ہونے دو، مگر سلیمان پر نظر رکھو۔ اگر وہ واقعی غدار ہے تو ہمیں رنگے ہاتھوں پکڑنا ہوگا!”
رات کا فیصلہ
کچھ دیر بعد، ایک اور قاصد ارطغرل کے خیمے میں داخل ہوا۔ وہ تیزی سے بولا:
“سردار! سلیمان ابھی ابھی قبیلے سے باہر نکلا ہے، اور وہ جنگل کی طرف جا رہا ہے!”
ارطغرل فوراً اپنی تلوار سنبھال کر کھڑا ہوا۔ اس کے چہرے پر فیصلہ کن نظر تھی۔ وہ اپنے چند بہترین سپاہیوں کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہوا اور خاموشی سے جنگل کی طرف بڑھا۔
دھوکہ فاش
رات کی تاریکی میں، سلیمان ایک درخت کے نیچے رکا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ پھر وہ سرگوشی میں کسی سے بات کرنے لگا۔ ارطغرل اور اس کے ساتھی سایوں کی طرح درختوں کے پیچھے چھپے دیکھ رہے تھے۔ کچھ لمحوں بعد، جنگل کے اندھیرے سے ایک اور شخص نمودار ہوا۔ یہ بازنطینی فوج کا ایک سپاہی تھا!
سلیمان نے جیب سے ایک چھوٹا سا خفیہ خط نکالا اور اس شخص کے حوالے کر دیا۔
“کل رات حملہ کرنا، قبیلے کی حفاظت کمزور ہوگی، اور ارطغرل کو خیمے میں ہی قابو کر لیا جائے گا!” سلیمان نے سرگوشی میں کہا۔
یہ سن کر ارطغرل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ آگے بڑھا اور تلوار نکال کر گرج دار آواز میں بولا:
“دھوکہ دینے والے، تیرا وقت ختم ہو چکا ہے!”
آخری جنگ
سلیمان اور بازنطینی سپاہی دونوں چونک کر پیچھے ہٹے، مگر ارطغرل کے سپاہیوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ بازنطینی سپاہی تلوار نکال کر حملہ کرنے کی کوشش کرنے لگا، مگر ارطغرل نے ایک ہی وار میں اسے زمین پر گرا دیا۔
سلیمان نے بھاگنے کی کوشش کی، مگر ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر اسے قابو کر لیا۔
“ارطغرل، میری بات سنو! میں… میں مجبور تھا!” سلیمان نے گھبراہٹ میں کہا۔
ارطغرل نے سختی سے جواب دیا: “غداروں کی صرف ایک ہی سزا ہوتی ہے!”
انجام
سلیمان کو قبیلے میں لے جایا گیا، جہاں تمام لوگ حیرت سے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ ارطغرل نے سب کے سامنے اس کے غداری کے ثبوت پیش کیے، اور قبیلے کے بزرگوں نے فیصلہ سنایا کہ غدار کو اس کے انجام تک پہنچایا جائے گا۔
یہ واقعہ ارطغرل غازی کی عقل مندی اور بہادری کی ایک اور مثال بن گیا۔ وہ ہمیشہ جانتا تھا کہ دشمن سے زیادہ خطرناک وہ ہوتے ہیں جو اپنوں کا روپ دھار کر وار کرتے ہیں۔
اور یہی وہ اصول تھا جس نے ارطغرل کو تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش جنگجو بنا دیا!