خالد بن ولید، یرموک کی جنگ میں فتح
یہ 636 عیسوی کا واقعہ ہے، جب رومی سلطنت اور مسلمانوں کے درمیان یرموک کا فیصلہ کن معرکہ ہونے والا تھا۔ ایک طرف رومیوں کی ایک لاکھ سے زائد فوج تھی، جو ہر لحاظ سے طاقتور اور بہترین ہتھیاروں سے لیس تھی۔ دوسری طرف مسلمانوں کی فوج تھی، جو تعداد میں کم لیکن ایمان، جرات اور بہادری میں بے مثال تھی۔
رومیوں کی چالاکی
جب رومی جرنیلوں نے محسوس کیا کہ اسلامی لشکر تعداد میں کم ہے، تو انہوں نے ایک خفیہ سازش تیار کی۔ ایک رومی سردار نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا:
“خالد بن ولیدؓ اس فوج کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ اگر ہم انہیں میدانِ جنگ سے ہٹا دیں، تو اسلامی لشکر بکھر جائے گا!”
چنانچہ، رومیوں نے ایک خفیہ قاتل دستہ تیار کیا، جسے خاص ہدایت دی گئی کہ جنگ کے آغاز میں ہی خالد بن ولیدؓ پر حملہ کر کے انہیں شہید کر دیا جائے۔
خالد بن ولیدؓ کی حکمتِ عملی
لیکن خالد بن ولیدؓ کو اللہ کی طرف سے خاص فراست عطا کی گئی تھی۔ وہ دشمن کی چالوں کو پہلے ہی بھانپ لیتے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ رومی فوج کچھ غیر معمولی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
رات کے وقت، وہ اپنے چند بہادر سپاہیوں کے ساتھ خفیہ طور پر دشمن کے کیمپ کی طرف بڑھے اور کچھ رومی فوجیوں کو قید کر لیا۔ جب ان قیدیوں سے تفتیش کی گئی، تو رومی سازش کا پردہ فاش ہو گیا!
مسلمانوں کا زبردست جوابی وار
خالد بن ولیدؓ نے فوراً اپنی فوج کو نئی حکمتِ عملی کے مطابق ترتیب دیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا:
“دشمن سمجھتا ہے کہ اگر میں جنگ کے آغاز میں مارا گیا، تو مسلمان ہار جائیں گے۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ میرا ہر سپاہی ایک خالد بن ولید ہے!”
جنگ کے دن، جیسے ہی رومیوں کے خفیہ قاتل آگے بڑھے، اسلامی لشکر نے پہلے سے طے شدہ حکمتِ عملی کے مطابق ان کا محاصرہ کر لیا اور انہیں ختم کر دیا۔
یرموک کی شاندار فتح
اس کے بعد، خالد بن ولیدؓ نے رومی فوج پر زبردست حملہ کیا۔ اسلامی سپاہیوں کی بہادری اور جنگی مہارت کے سامنے رومی لشکر کی صفیں بکھر گئیں۔ کئی رومی جرنیل مارے گئے اور بہت سے سپاہی میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے۔
یہ تاریخی فتح تھی، جس نے شام میں اسلامی فتوحات کے دروازے کھول دیے۔
نتیجہ
یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ حکمت، بہادری، اور اللہ پر بھروسہ ہمیشہ دشمن کی چالوں کو ناکام بنا دیتا ہے۔ رومی فوج تعداد میں زیادہ تھی، ان کے پاس بہترین ہتھیار تھے، لیکن خالد بن ولیدؓ کی جنگی مہارت اور مسلمانوں کا ایمان ان پر بھاری پڑا!