خلیفہ کا خفیہ مہمان
یہ واقعہ خلافت عباسیہ کے ایک عظیم اور مشہور خلیفہ ہارون الرشید کے دور کا ہے۔ ہارون الرشید کی حکمرانی عدل و انصاف کی مثال تھی، لیکن وہ اکثر عام شہریوں کی حالت جاننے کے لیے راتوں کو بھیس بدل کر بغداد کی گلیوں میں گھومتے تھے۔
پراسرار خط
ایک رات، جب خلیفہ محل میں تھا، ایک سپاہی نے ایک سربمہر خط پیش کیا۔ خط میں لکھا تھا:
“اگر آپ کو اپنی رعایا کا سچا حال جاننا ہے تو آج رات شہر کے جنوب میں واقع پرانی سرائے میں آئیے۔ وہاں آپ کو وہ چیز ملے گی جو آپ کی سلطنت کو ہلا کر رکھ دے گی۔”
یہ پڑھ کر خلیفہ ہکا بکا رہ گیا۔ کیا کوئی سازش ہو رہی تھی؟ کیا یہ کسی دشمن کی چال تھی؟ یا شاید یہ ایک موقع تھا کہ وہ کسی بڑی خیانت کو بے نقاب کرے؟
رات کی تاریکی میں سفر
ہارون الرشید نے اپنے وفادار ساتھی جعفر برمکی اور چند قابل اعتماد سپاہیوں کو ساتھ لیا اور عام لباس میں سرائے کی طرف روانہ ہوا۔ وہ ہر چیز کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے مقررہ مقام پر پہنچے۔
وہاں ایک کمرے میں مدھم روشنی میں ایک بزرگ شخص بیٹھا تھا۔ جیسے ہی خلیفہ اندر داخل ہوا، اس نے سر اٹھایا اور بولا:
“مجھے معلوم تھا کہ آپ آئیں گے، اے امیر المؤمنین!”
خلیفہ حیران رہ گیا کہ یہ شخص جانتا تھا کہ وہ خلیفہ ہے!
خفیہ راز کا انکشاف
خلیفہ نے اس بزرگ سے پوچھا: “تم کون ہو، اور مجھے یہاں بلانے کا مقصد کیا ہے؟”
بزرگ نے ایک گہری سانس لی اور کہا: “میں ایک سابق درباری ہوں، اور میں ایک ایسا راز جانتا ہوں جو اگر آپ تک نہ پہنچایا جاتا، تو خلافت برباد ہو سکتی تھی۔”
ہارون الرشید اور اس کے ساتھی ہمہ تن گوش ہو گئے۔
بزرگ نے کہا: “آپ کے محل میں آپ کے ہی ایک وزیر نے آپ کے خلاف بغاوت کی سازش تیار کر رکھی ہے۔ وہ رات کے اندھیرے میں خفیہ میٹنگز کر رہا ہے اور دشمنوں کے ساتھ خفیہ خط و کتابت میں مصروف ہے۔ اگر آپ آج رات محل واپس جا کر خفیہ دروازے کے قریب چھپ کر دیکھیں، تو آپ کو خود اس سازش کی حقیقت معلوم ہو جائے گی۔”
حقیقت بے نقاب
ہارون الرشید کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کے اپنے وزراء میں سے کوئی غداری کر سکتا ہے، لیکن وہ اس معاملے کی حقیقت جاننے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ وہ فوری طور پر واپس محل پہنچا اور چھپ کر اس خفیہ دروازے کے قریب کھڑا ہو گیا، جس کا ذکر اس بزرگ نے کیا تھا۔
کچھ دیر بعد، اسے دھیرے دھیرے قدموں کی آواز سنائی دی۔ دو سائے آگے بڑھے اور مدھم آواز میں باتیں کرنے لگے۔ ان میں سے ایک خلیفہ
وہ کون تھا جو رات کے اندھیرے میں روتا تھا مزید پڑھیے
کا قابل اعتماد وزیر تھا!
“سب تیار ہے؟” وزیر نے سرگوشی میں کہا۔
“ہاں، بس ایک اشارہ ملتے ہی حملہ ہو جائے گا۔ خلیفہ کو خبر تک نہیں ہوگی کہ اس کے اپنے ہی لوگ اسے دھوکہ دے رہے ہیں!” دوسرے شخص نے جواب دیا۔
ہارون الرشید کا غصہ آسمان کو چھونے لگا، لیکن وہ خاموشی سے اپنے سپاہیوں کو اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھا۔ جیسے ہی انہوں نے وزیر اور اس کے ساتھی کو پکڑا، وہ دونوں بوکھلا گئے اور حقیقت کھل گئی۔
انصاف کا فیصلہ
صبح ہوتے ہی خلیفہ نے عدالت لگائی اور تمام درباریوں کے سامنے اس خائن وزیر کو بے نقاب کیا۔ وہی شخص جس پر سب سے زیادہ اعتماد کیا گیا تھا، وہی سب سے بڑا غدار نکلا۔
ہارون الرشید نے اس پر سخت سزا نافذ کی اور اپنے دربار کو پاک کرنے کا عہد کیا۔
مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
نتیجہ
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیشہ چوکنا رہنا چاہیے اور سب سے زیادہ قریب موجود لوگوں کی نیتوں کو بھی پرکھتے رہنا چاہیے۔ ہارون الرشید کی ذہانت، صبر اور انصاف پسندی نے نہ صرف اس کی خلافت کو بچایا بلکہ ثابت کر دیا کہ عدل ہی ایک عظیم حکمران کی سب سے بڑی طاقت ہے۔