Email :17
صلاح الدین ایوبیؒ: بیت المقدس کی ناقابل یقین فتح
“رات کی تاریکی میں سلطان کی بےچینی…”
رات کا اندھیرا چھا چکا تھا۔ خیموں میں چراغ مدھم جل رہے تھے۔ سپاہی دن بھر کی تھکن کے بعد آرام کر رہے تھے، لیکن صلاح الدین ایوبیؒ کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔ وہ اپنے خیمے میں جاگ رہے تھے، ان کے چہرے پر تفکر کے آثار تھے۔ دشمن بہت طاقتور تھا، مگر حق کی یہ جنگ وہ ہر حال میں جیتنا چاہتے تھے۔
اچانک ایک محافظ دوڑتا ہوا آیا اور ہانپتے ہوئے کہا:
“سلطان! دشمن کے قاصد نے خفیہ پیغام بھیجا ہے!”
صلاح الدین نے کاغذ لیا، پڑھا، اور ایک لمحے کے لیے ان کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھا گئی۔ کیا واقعی صلیبیوں کو مسلمانوں کی جنگی حکمتِ عملی کا علم ہو چکا تھا؟ اگر ایسا تھا تو کل کا حملہ ناکام بھی ہو سکتا تھا! لیکن صلاح الدین ایوبیؒ جانتے تھے کہ “اللہ کی مدد ہمیشہ حق کے ساتھ ہوتی ہے!”
انہوں نے اللہ کا نام لے کر آخری فیصلہ کیا، اور پھر ایک ایسا معرکہ برپا ہوا، جس نے تاریخ بدل کر رکھ دی…
بیت المقدس کی جنگ: ایمان، حکمت اور فتح کی داستان
یہ 1187 عیسوی کا وقت تھا۔ بیت المقدس پر 90 سال سے صلیبیوں کا قبضہ تھا، جو مسلمانوں کا قتل عام کر چکے تھے۔ مگر اب صلاح الدین ایوبیؒ کی قیادت میں مسلم افواج اپنی مقدس سرزمین کو واپس لینے کے لیے نکل چکی تھیں۔
صلاح الدین ایوبیؒ کے سامنے صلیبیوں کے بڑے بڑے بادشاہ اور جنگجو کھڑے تھے:
•گائی دی لوزیناں (Jerusalem کا صلیبی حکمران)
•رینالڈ دی شاتیوں (مسلمان قافلوں کا لٹیرا)
یہ دونوں سلطان کو کمزور سمجھ رہے تھے، مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ وہ مرد مجاہد ہے جس کے دل میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت تھی!
جنگِ حطین: فیصلہ کن معرکہ
4 جولائی 1187 کو حطین کے میدان میں تاریخ کی ایک عظیم جنگ ہوئی۔ صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبی فوج کو ایک چالاک حکمتِ عملی سے گھیر لیا۔ انہوں نے صلیبیوں کے پانی کے ذخائر بند کر دیے، اور دشمن پیاس سے نڈھال ہونے لگا۔ دوسری طرف مسلمان نعرے لگا رہے تھے:
“اللہ اکبر! اللہ اکبر!”
جب صلیبی فوج کمزور ہو گئی، تو سلطان نے حملے کا حکم دیا۔ مسلمان سپاہیوں نے دشمن پر ٹوٹ پڑے اور چند گھنٹوں میں صلیبی فوج کو خاک میں ملا دیا!
گائی دی لوزیناں اور رینالڈ دی شاتیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
رینالڈ دی شاتیوں کا انجام
رینالڈ وہی شخص تھا جس نے مسلمانوں کے قافلے لوٹے اور گستاخی کی کہ:
“محمد (ﷺ) مجھے بچانے نہیں آئیں گے!”
جب اسے صلاح الدین ایوبیؒ کے سامنے پیش کیا گیا، تو سلطان نے اس سے کہا:
“میں اپنے نبی ﷺ کی بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتا!”
یہ کہہ کر سلطان نے خود اپنی تلوار سے اس گستاخ کا سر قلم کر دیا! یہ دیکھ کر گائی دی لوزیناں خوفزدہ ہو گیا، لیکن سلطان نے کہا:
“بادشاہوں کو قتل نہیں کیا جاتا، جاؤ اور دیکھو کہ اللہ کا نظام کیسا ہوتا ہے!”
بیت المقدس کی فتح
2 اکتوبر 1187 کو مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کر لیا! مگر صلیبیوں کو حیرت تب ہوئی جب صلاح الدین ایوبیؒ نے شہر میں داخل ہو کر امن و انصاف کا اعلان کر دیا۔
1099 میں جب صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تھا، تو انہوں نے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا۔ لیکن صلاح الدین ایوبیؒ نے سب عیسائیوں کو امان دے دی!
کئی صلیبی عورتیں آئیں اور رو کر کہنے لگیں:
“سلطان! ہمارے شوہر قیدی ہیں، ہمیں ان کے بغیر نہ نکالو!”
یہ سن کر سلطان نے فرمایا:
“اسلام رحم اور انصاف کا دین ہے، سب قیدیوں کو آزاد کر دو!”
یہ سن کر پورا بیت المقدس گونج اٹھا:
“اللہ اکبر! اللہ اکبر!”
صلاح الدین ایوبیؒ کی سخاوت
یہ وہی صلاح الدین تھے جن کے پاس اپنی وفات کے وقت کفن کے علاوہ کچھ نہیں تھا!
جب وہ بیمار ہوئے تو طبیب نے کہا:
“سلطان! آپ کا جسم کمزور ہو چکا ہے، آپ کو طاقتور غذا کھانی چاہیے!”
سلطان نے مسکرا کر کہا:
“مجھے اللہ کی رضا کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں!”
جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے، تو ان کے پاس کسی قسم کا سونا یا جائیداد نہ تھی۔ سب کچھ اللہ کی راہ میں دے چکے تھے۔
یہ تھے صلاح الدین ایوبیؒ، جن کی تلوار نے بھی فتح حاصل کی اور رحم دلی نے بھی لوگوں کے دل جیت لیے!
یہ ہے اسلام کی اصل تاریخ!
صلاح الدین ایوبیؒ کی جنگی حکمتِ عملی، ان کا ایمان، ان کی رحم دلی اور انصاف آج بھی دنیا کے بہترین حکمرانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
یہ وہ عظیم فاتح تھے جنہوں نے دنیا کو دکھایا کہ اسلام تلوار سے نہیں، انصاف اور کردار سے حکومت کرتا ہے!