سچے واقعات

وہ کون تھا جو رات کے اندھیرے میں روتا تھا؟

Email :19

وہ کون تھا جو رات کے اندھیرے میں روتا تھا؟

یہ واقعہ خلافتِ راشدہ کے دور کا ہے، جب عدل و انصاف کی روشنی پوری دنیا میں پھیل رہی تھی۔ مدینہ کی گلیوں میں ایک رات ایک شخص چپکے چپکے چل رہا تھا۔ اس کے قدموں کی چاپ مدھم تھی، جیسے وہ کسی کی نیند خراب نہ کرنا چاہتا ہو۔ وہ ایک ایک گھر کے پاس رک کر کچھ سنتا، پھر آگے بڑھ جاتا۔

یہ معمول ہر رات کا تھا۔ مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون تھا؟ لوگ بس اتنا جانتے تھے کہ رات کے اندھیرے میں کوئی آتا ہے، کسی کے دروازے کے قریب ٹھہرتا ہے، اور پھر آگے بڑھ جاتا ہے۔

ایک دن ایک شخص نے ہمت کی اور چھپ کر دیکھنے کی کوشش کی کہ یہ رات کا مسافر کون ہے۔ جب اس نے قریب جا کر دیکھا تو اس کے قدم لرز گئے، آنکھوں میں آنسو آ گئے!

یہ کوئی عام شخص نہیں تھا… یہ امیر المومنین عمر بن الخطابؓ تھے!

ہاں! وہی عمرؓ جن کے نام سے قیصر و کسریٰ کے محلات کانپتے تھے، وہی عمرؓ جو دن میں حکمرانی کرتے اور رات میں اپنی رعایا کے حال جاننے کے لیے خود مدینہ کی گلیوں میں نکلتے۔ وہ چھپ کر لوگوں کے حالات سنتے، کہ کوئی بھوکا تو نہیں سویا؟ کوئی بیمار تو نہیں؟ کوئی بیوہ یا یتیم تو تکلیف میں نہیں؟ اور اگر کوئی مشکل میں ہوتا، تو فوراً اس کی مدد کرتے، مگر کسی کو پتا تک نہ چلنے دیتے۔

ایک رات وہ ایک گھر کے باہر رُکے۔ اندر سے بچوں کے رونے کی آواز آ رہی تھی۔ آپؓ دروازے کے قریب ہوئے تو دیکھا کہ ایک بوڑھی خاتون چولہے پر خالی ہانڈی رکھے بیٹھی تھی، اور بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔

عمرؓ نے دھیمی آواز میں پوچھا: “بچوں کو کیوں نہیں سلاتیں؟”

بوڑھی عورت نے جواب دیا: “کیا کروں؟ بھوکے ہیں، کچھ کھانے کو نہیں۔ میں نے چولہے پر پانی چڑھا دیا ہے، تاکہ یہ سمجھیں کہ کھانا پک رہا ہے، اور انتظار کرتے کرتے سو جائیں گے۔”

یہ سن کر عمرؓ کا دل پگھل گیا۔ وہ فوراً بیت المال گئے، اپنی پیٹھ پر آٹے اور کھانے کا تھیلا رکھا، اور خود لے کر اس خاتون کے گھر پہنچے۔ ساتھی نے کہا: “امیر المومنین! مجھے دے دیجیے، میں اٹھا کر لے چلتا ہوں!”

عمرؓ نے فرمایا: “کیا قیامت کے دن بھی میرا بوجھ تم اٹھاؤ گے؟”

وہ خود کھانے کا سامان لے کر گئے، اسے پکانے میں مدد کی، اور جب بچے کھا کر مسکرانے لگے، تب جا کر سکون پایا۔

یہ تھا وہ انصاف اور احساس، جس نے تاریخ کو بدل کر رکھ دیا! یہی وہ حکمرانی تھی، جس کے بارے میں کہا گیا:

“اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا، تو عمرؓ سے اس کا حساب لیا جائے گا!”

یہ واقعہ آج بھی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حکمران وہی اچھا ہوتا ہے جو رعایا کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھے، اور دوسروں کی مدد ایسے کرے جیسے خود اپنا کام کر رہا ہو۔

کیا آج ہم میں کوئی عمرؓ جیسا حکمران ہے؟ 💔

4o
You said:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Posts