ٹیپو سلطان کی شہادت کی رات
ندھیری رات تھی۔ سرنگاپٹم کے قلعے کے گرد سناٹا چھایا ہوا تھا، مگر یہ خاموشی ایک طوفان کا پیش خیمہ تھی۔ دریائے کاویری کے کنارے دشمن کی فوجیں ڈیرے ڈال چکی تھیں، اور ہر سپاہی کی نظریں قلعے کی اونچی فصیلوں پر جمی تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ ایک عام دشمن کا سامنا نہیں کر رہے، بلکہ تاریخ کے سب سے بہادر مسلمان حکمران ٹیپو سلطان کے خلاف میدان میں اترنے والے ہیں۔
ایک خفیہ سازش
اسی رات، قلعے کے اندر ایک خفیہ میٹنگ ہو رہی تھی۔ ٹیپو سلطان کے چند قریبی سردار بےچینی سے بیٹھے تھے۔ ایک اجنبی شخص، جو بظاہر ایک سوداگَر لگ رہا تھا، آہستہ آہستہ قریب آیا اور سرگوشی میں بولا:
“سلطان! دشمن قلعے کے خفیہ دروازے کا سراغ لگا چکا ہے، اور کچھ غدار دشمن کے ساتھ مل چکے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو راتوں رات یہاں سے نکل کر اپنی فوجیں دوبارہ اکٹھی کر سکتے ہیں!”
ٹیپو سلطان نے گہری نظر سے اسے دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں وہی شعلہ بھڑک رہا تھا جس نے انگریزوں کو کئی سالوں سے خوفزدہ کر رکھا تھا۔ وہ مسکرائے اور صرف اتنا کہا:
“شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے!”
یہ کہہ کر وہ اٹھے، اپنی تلوار تھامی، اور حکم دیا کہ تمام سپاہی آخری وقت کے لیے تیار ہو جائیں۔
قلعے پر حملہ
صبح کی پہلی کرن ابھی نمودار بھی نہ ہوئی تھی کہ دشمن نے چاروں طرف سے حملہ کر دیا۔ توپوں کی گرج، تلواروں کی جھنکار اور نیزوں کی چھنکار سرنگاپٹم کو لرزا رہی تھی۔ دشمن کی فوجیں، جنہیں برطانوی جرنیل لارڈ ویلزلی کی قیادت حاصل تھی، دیواروں پر چڑھنے لگیں۔
مگر قلعے کے اندر ایک آگ دہک رہی تھی – جہاد کی آگ، حریت کی آگ!
ٹیپو سلطان اپنی تلوار “شمشیرِ برہنہ” تھامے دشمنوں پر ٹوٹ پڑے۔ وہ ایک ایک حملہ ایسا کرتے گویا پوری قوم کی تقدیر کا فیصلہ اسی لمحے ہونا تھا۔ خون کی ندیاں بہنے لگیں، مگر سلطان کے قدم پیچھے نہ ہٹے۔
آخری گھڑی
لڑائی اپنے عروج پر تھی جب اچانک ایک دشمن سپاہی نے سلطان کو پہچان کر آواز لگائی:
“یہ ہے ٹیپو سلطان! اسے زندہ پکڑ لو!”
یہ سنتے ہی ایک برطانوی افسر آگے بڑھا اور کہا:
“ٹیپو! اگر تم ہتھیار ڈال دو تو ہم تمہیں معاف کر سکتے ہیں!”
سلطان نے زخموں سے چور ہونے کے باوجود اپنی تلوار بلند کی اور گرج کر بولے:
“میں اپنے اللہ کے سوا کسی کے سامنے سر نہیں جھکاتا!”
یہ کہتے ہی انہوں نے دشمن پر آخری حملہ کیا، لیکن پیچھے سے ایک غدار نے ان پر وار کیا۔ سلطان گھٹنوں کے بل گرے، مگر ان کی نظریں آسمان کی طرف تھیں۔ آخری الفاظ جو ان کی زبان سے نکلے وہ یہ تھے:
“یا اللہ! مجھے اپنے حضور قبول فرما!”
ایک عظیم قربانی
جیسے ہی ٹیپو سلطان شہید ہوئے، دشمن فوج پر خاموشی چھا گئی۔ انگریزوں کو احساس ہو چکا تھا کہ وہ ایک عام بادشاہ کو نہیں، بلکہ اسلام کے ایک عظیم سپاہی کو مار چکے ہیں۔ لارڈ ویلزلی خود بھی حیران تھا کہ ایک ایسا شخص جو اپنی جان بچا سکتا تھا، اس نے شہادت کو غلامی پر ترجیح دی۔
اور یوں، تاریخ میں ہمیشہ کے لیے لکھ دیا گیا کہ ٹیپو سلطان نہ صرف ایک بہادر حکمران تھے، بلکہ ایک سچے مسلمان بھی، جنہوں نے آخری دم تک “لا الہ الا اللہ” کا پرچم بلند رکھا!