خلیفہ کی رات کا مسافر
مدینہ کی سڑکوں پر رات کا سناٹا تھا۔ چاند بادلوں کے پیچھے چھپ چکا تھا، اور ٹھنڈی ہوا گرد و غبار کو گھما رہی تھی۔ اچانک گھوڑے کے سموں کی آواز گونجی۔ ایک سوار تیزی سے قلعے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کی سانسیں بےترتیب تھیں، چہرہ پسینے میں بھیگا ہوا تھا، اور آنکھوں میں خوف جھلک رہا تھا۔
قلعے کے دروازے پر کھڑے محافظ نے تلوار کھینچ لی۔
“رک جاؤ! کون ہو اور اس وقت یہاں کیوں آئے ہو؟” محافظ گرجا۔
سوار نے کپکپاتی آواز میں کہا: “مجھے فوراً صلاح الدین ایوبی تک پہنچاؤ! دشمن… دشمن ہمارے قریب آ چکا ہے!”
محافظ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔
صلاح الدین ایوبی… کیا وہ جانتے تھے کہ ان پر ایسی خطرناک رات میں حملہ ہونے والا تھا؟ کیا تاریخ ایک بار پھر خون میں لکھی جانے والی تھی؟