یہ ان دنوں کی بات ہے جب سلطان صلاح الدین ایوبی بیت المقدس کی فتح کے لیے ہر محاذ پر دشمنوں سے برسرپیکار تھے۔ اسلامی لشکر بہادری سے لڑ رہا تھا، مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ کئی بار جنگی منصوبے دشمنوں تک پہنچ جاتے، جیسے کوئی راز فاش کر رہا ہو۔ سلطان کے مشیروں کو یقین ہو چلا تھا کہ لشکر میں کوئی ایمان فروش موجود ہے، مگر وہ کون تھا؟ یہ راز کھلنا ابھی باقی تھا۔
ایک رات، سچائی بے نقاب ہوئی…
سلطان کے خاص سپہ سالاروں میں سے ایک، قاسم بن عمر، کو ایک خفیہ پیغام ملا کہ کسی نے دشمنوں کے خیمے میں ایک پوشیدہ خط بھیجا ہے۔ قاسم نے موقع پر ہی ایک خاص سپاہی کو اس کا کھوج لگانے کے لیے بھیج دیا۔ وہ سپاہی رات کے اندھیرے میں دشمن کے علاقے میں جا گھسا اور جو منظر وہاں دیکھا، وہ اس کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی تھا۔
ایک شخص صلیبیوں کے جرنیل سے بات کر رہا تھا… اور وہ کوئی اور نہیں، بلکہ سلطان کے اپنے دربار کا ایک معتمد خاص تھا – وہ شخص جس پر سب سے زیادہ اعتماد کیا جاتا تھا!
جب نقاب اترا…
اگلی صبح، سلطان صلاح الدین ایوبی کے دربار میں ایک ہلچل مچ گئی۔ ایک شخص کو باندھ کر لایا گیا۔ وہ شخص وہی تھا جو رات دشمن کے کیمپ میں پکڑا گیا تھا۔ سلطان نے اسے سخت نظروں سے دیکھا اور بس ایک سوال کیا:
“بتاؤ! تم نے کتنی قیمت پر ایمان بیچا؟”
وہ کانپنے لگا، مگر کچھ کہہ نہ سکا۔ سلطان نے سپاہیوں کو اشارہ کیا، اور چند لمحوں بعد اس کا وہی انجام ہوا جو ہر غدار کا ہوتا ہے…
یہ تاریخ کا ایک سچا سبق ہے کہ جو اپنی قوم اور ایمان سے غداری کرتا ہے، وہ ہمیشہ عبرت کا نشان بن کر رہ جاتا ہے!