سچے واقعات

عمر بن عبدالعزیز

Email :17
“عمر بن عبدالعزیز: وہ خلیفہ جس نے خلافت کو امانت سمجھا”
یہ ایک عام دن تھا، مگر دمشق کے شاہی محل میں کچھ غیر معمولی ہو رہا تھا۔ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک بیمار بستر پر تھے، اور سلطنتِ بنی امیہ کے امراء نئے خلیفہ کے انتخاب پر غور کر رہے تھے۔ جب سلیمان نے اپنی وصیت لکھی اور اس میں عمر بن عبدالعزیز کا نام بطور خلیفہ درج کیا، تو سب حیران رہ گئے۔
یہ وہی عمر بن عبدالعزیز تھے جن کی شہرت عدل و انصاف کے لیے تھی، جو شان و شوکت کے بجائے سادگی پسند کرتے تھے، اور جن کی رگوں میں حضرت عمر فاروقؓ کا خون دوڑ رہا تھا۔
خلافت کا بوجھ
جب سلیمان کا انتقال ہوا تو دربار میں درجنوں امراء اور سپاہی جمع تھے۔ قاضی نے آگے بڑھ کر وصیت کا اعلان کیا، اور جیسے ہی عمر بن عبدالعزیز کا نام لیا گیا، پورا دربار حیرت میں ڈوب گیا۔
عمر بن عبدالعزیز خود بھی صدمے میں تھے۔ وہ تیزی سے کھڑے ہوئے اور بولے:
“یہ ذمہ داری میرے بس کی نہیں، کسی اور کو خلیفہ بنا لو!”
مگر دربار میں موجود بزرگ عالم رجاء بن حیوہ نے آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا:
“اے امیر المؤمنین! یہ تاج نہیں، ایک بھاری ذمہ داری ہے جو تمہارے سپرد کی گئی ہے۔ اسے اللہ کی رضا کے لیے قبول کرو!”
عمر بن عبدالعزیز کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انہوں نے سر جھکایا اور کہا:
“اگر یہ اللہ کا فیصلہ ہے، تو میں اسے قبول کرتا ہوں۔”
سب سے پہلا حکم
تخت پر بیٹھتے ہی انہوں نے پہلا اعلان کیا:
“میرا کوئی محافظ نہیں ہوگا، میرا کوئی شاہی لباس نہیں ہوگا، اور میرا کوئی شاہی خزانہ نہیں ہوگا۔ میں بھی ایک عام مسلمان کی طرح رہوں گا!”
یہ اعلان سن کر درباری ششدر رہ گئے۔ ان کے بعد انہوں نے بیت المال کے نگران کو بلایا اور کہا:
“یہ تمام شاہی زمینیں اور جائیدادیں بیت المال میں لوٹا دی جائیں، کیونکہ یہ مسلمانوں کی امانت ہے!”
یہ سن کر بنو امیہ کے کچھ امراء پریشان ہو گئے، کیونکہ ان کی دولت اور جاگیریں ضبط ہونے والی تھیں۔ مگر خلیفہ کا فیصلہ اٹل تھا۔
رات کے وقت چراغ کیوں بجھا دیا؟
ایک رات خلیفہ اپنے دفتر میں کام کر رہے تھے۔ دربار کا ایک ملازم آیا اور ذاتی معاملے پر گفتگو کرنے لگا۔ ابھی بات شروع ہی ہوئی تھی کہ خلیفہ نے چراغ بجھا دیا۔
ملازم حیران ہو کر بولا:
“امیر المؤمنین! چراغ کیوں بجھا دیا؟”
عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا:
“یہ چراغ بیت المال کے پیسوں سے جل رہا ہے، اور یہ روشنی صرف مسلمانوں کے کام کے لیے ہے۔ اگر تم مجھ سے کوئی ذاتی بات کرنا چاہتے ہو تو سرکاری چراغ جلانے کا کوئی حق نہیں!”
یہ سن کر ملازم حیرت سے دم بخود رہ گیا۔
عدل و انصاف کا وہ نظام جو دنیا نے پہلے کبھی نہ دیکھا
عمر بن عبدالعزیز نے پورے عالمِ اسلام میں عدل و انصاف کا ایک نیا نظام متعارف کرایا:
•گورنروں کا احتساب:
انہوں نے حکم دیا کہ ہر گورنر کی جائیداد کا حساب لیا جائے، اور اگر کسی نے غیر قانونی دولت اکٹھی کی ہے تو وہ واپس بیت المال میں جمع کی جائے۔
•یتیموں اور بیواؤں کے لیے وظائف:
خلیفہ نے حکم دیا کہ تمام یتیم بچوں اور بیواؤں کو ماہانہ بیت المال سے وظیفہ دیا جائے تاکہ کوئی بھوکا نہ سوئے۔
•غیر مسلموں کے حقوق:
انہوں نے غیر مسلم رعایا کے ساتھ بھی عدل کا معاملہ رکھا۔ جب ایک مسلمان نے کسی عیسائی سے زبردستی زمین ہتھیائی، تو خلیفہ نے فوراً زمین واپس کروائی اور اس مسلمان پر جرمانہ عائد کیا۔
•ظلم کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات:
انہوں نے کہا:
“اگر کسی گورنر نے ظلم کیا، تو میں اس کے خلاف سب سے پہلے کھڑا ہوں گا!”
زہر دے کر شہید کر دیا گیا
عمر بن عبدالعزیز کا عدل و انصاف کئی لوگوں کو ناگوار گزرا۔ خاص طور پر وہ امراء جن کی دولت ضبط ہو رہی تھی۔ کچھ اموی خاندان کے افراد نے خلیفہ کو راستے سے ہٹانے کی سازش تیار کی۔
ایک دن، ان کے خادم کو رشوت دے کر ان کے کھانے میں زہر ملا دیا گیا۔ چند دن بعد، خلیفہ سخت بیمار ہو گئے۔ جب ان کی حالت بگڑنے لگی، تو ایک شخص آیا اور بولا:
“اے امیر المؤمنین! آپ کی زندگی کا آخری وقت ہے، کیا کوئی وصیت کرنا چاہتے ہیں؟”
عمر بن عبدالعزیز مسکرا کر بولے:
“میری وصیت یہی ہے کہ میرے بعد بھی عدل و انصاف کا دامن مت چھوڑنا۔”
یہ کہہ کر انہوں نے کلمہ طیبہ پڑھا، اور ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔
نتیجہ
عمر بن عبدالعزیز کی خلافت صرف دو سال پانچ مہینے رہی، مگر ان کی حکومت کو دوسری خلافتِ راشدہ کہا جاتا ہے۔ وہ پہلے خلیفہ تھے جن کے دور میں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں تھا، کیونکہ ہر غریب کی ضرورت پوری کر دی گئی تھی۔
آج بھی دنیا میں کوئی حکمران ایسا نہیں گزرا جس نے اتنے کم عرصے میں ایسا عدل و انصاف قائم کیا ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Posts