سچے واقعات

“کشتیاں جلانے والا جرنیل: طارق بن زیاد کی ناقابلِ یقین داستان”

Email :17

“کشتیاں جلانے والا جرنیل: طارق بن زیاد کی ناقابلِ یقین داستان”

رات کی تاریکی میں سمندر کی لہریں خاموش تھیں، مگر کنارے پر کھڑے سپاہیوں کے دلوں میں طوفان برپا تھا۔ ان کے سامنے اندلس (اسپین) کی سرزمین تھی، جہاں ایک عظیم جنگ ہونے والی تھی۔ لیکن پیچھے مڑ کر دیکھتے تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔

سب حیران تھے، ان کے چہروں پر خوف تھا، آنکھوں میں سوال تھے۔ ان کے جرنیل طارق بن زیاد نے ایک ایسا کام کر دیا تھا، جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ کشتیاں جلا دی گئی تھیں!

یہ کیا ہو رہا تھا؟ کیا واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا؟ کیا یہ موت کی وادی میں چھلانگ لگانے کے مترادف تھا؟

طارق بن زیاد بلند آواز میں بولے:
“اے میرے مجاہدو! اب تمہارے لیے صرف دو راستے ہیں: یا تو دشمن کو شکست دو اور اندلس کو فتح کر لو، یا پھر سمندر میں ڈوب کر مر جاؤ! پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہیں رہا!”

سپاہیوں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ دشمن کی فوج تعداد میں کئی گنا زیادہ تھی، لیکن ان کے جرنیل نے ان کے دلوں میں ایک ایسی آگ لگا دی تھی جسے کوئی نہیں بجھا سکتا تھا۔

اندلس کی جنگ اور طارق بن زیاد کی حکمتِ عملی

یہ واقعہ 711 عیسوی کا ہے، جب خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم پر موسیٰ بن نصیر کے تحت افریقی علاقے سے مسلمانوں کی ایک فوج اندلس کی طرف روانہ کی گئی۔ طارق بن زیاد اس فوج کے سپہ سالار تھے، جو صرف 12,000 سپاہیوں کے ساتھ اسپین کے عیسائی بادشاہ راڈرک کے ایک 90,000 فوجیوں پر مشتمل لشکر کا سامنا کرنے جا رہے تھے۔

طارق بن زیاد نے پہلے جبل الطارق (جس کا نام بعد میں انہی کے نام پر رکھا گیا) پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد وہ دشمن کے مقابلے کے لیے آگے بڑھے۔ جب اسلامی لشکر نے اندلس میں قدم رکھا، تو انہوں نے دیکھا کہ دشمن تعداد میں بے پناہ زیادہ ہے۔ کچھ سپاہیوں کے دلوں میں خوف پیدا ہونے لگا۔ یہ دیکھ کر طارق بن زیاد نے ایک تاریخی فیصلہ کیا اور اپنی فوج کی کشتیاں جلا دیں تاکہ پسپائی کا راستہ ختم ہو جائے۔

یہ فیصلہ بظاہر خطرناک لگ رہا تھا، مگر یہ درحقیقت ایک بہترین حکمتِ عملی تھی۔ اب مسلمانوں کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا—آگے بڑھو اور دشمن کو شکست دو!

معرکۂ وادیٔ لکہ )اس کے بعد 19 جولائی 711 کو وادیٔ لکہ میں ایک فیصلہ کن جنگ ہوئی۔ طارق بن زیاد نے اپنی فوج کو بہترین حکمتِ عملی سے تقسیم کیا۔ انہوں نے پہلے دشمن کے مضبوط حصے کو نشانہ بنایا اور پھر پیچھے سے حملہ کیا۔ ان کی بہادری، ایمان کی قوت، اور جنگی مہارت نے دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچا دی۔

سات دن تک مسلسل لڑائی جاری رہی، یہاں تک کہ راڈرک کی فوج ٹوٹنے لگی۔ آخرکار، راڈرک مارا گیا، اور اسلامی فوج کو ایک زبردست فتح نصیب ہوئی۔

اندلس پر اسلامی حکومت کا قیام

اس عظیم فتح کے بعد طارق بن زیاد اور ان کی فوج نے اندلس کے کئی مزید علاقے فتح کر لیے، اور یوں مسلمانوں کی حکومت اسپین میں قائم ہو گئی، جو اگلے 800 سال تک قائم رہی۔ اس دوران اندلس اسلامی تہذیب و تمدن، علم و حکمت، اور انصاف کا مرکز بن گیا۔

نتیجہ

یہ واقعہ ہمیں عزم، جرات، اور ایمان کی طاقت کا درس دیتا ہے۔ طارق بن زیاد نے نہ صرف ایک عظیم جنگ جیتی بلکہ اسلامی تاریخ کا ایک سنہری باب رقم کیا۔ ان کا فیصلہ کہ “کشتیاں جلا دی جائیں” آج بھی ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر ہم پیچھے ہٹنے کے تمام راستے بند کر دیں، تو فتح ہمارے قدم چومے گی۔

یہ تھا طارق بن زیاد کا سچا اور تاریخی اسلامی واقعہ، جو آج بھی ہمیں حوصلہ اور ہمت دیتا ہے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Posts